۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ امینی طاب ثراہ

حوزہ/ علامہ امینی نے بہت سے علمی آثار یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں جو اسلامی فرہنگ و ثقافت میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ یہ علمی آثار ، تالیف و تحقیق اور تعلیق جیسے مختلف میدانوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

آثار اور کارنامے
حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ امینی نے بہت سے علمی آثار یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں جو اسلامی فرہنگ و ثقافت میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ یہ علمی آثار ، تالیف و تحقیق اور تعلیق جیسے مختلف میدانوں میں دیکھے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
١۔شہداء الفضیلة:
یہ کتاب ١٣٥٥ ھ میں نجف اشرف میں شائع ہوئی ۔
یہ تاریخی کتاب ہے جس میں چوتھی صدی سے لے کر عہد حاضر تک کے اسلام کے شہید علماء کے حالات زندگی مذکور ہیں،علامہ نے ایک سو تیس ان شہیدوں کے نام گنائے ہیں جنہوںنے حمایت دین اور دفاع اسلام کی خاطر اپنی جان قربان کردی ہے ۔
علامہ نے اس کتاب میں ان شہداء کو شمار کیاہے : چوتھی صدی کے چار شہداء ، پانچویں صدی کے پانچ شہداء ، چھٹی صدی کے پندرہ شہداء ، ساتویں صدی کے چار شہداء ، آٹھویں صدی کے بارہ شہداء ، نویں صدی کے ایک شہید ، دسویں صدی کے سترہ شہداء ، پندرہویں صدی کے سات شہداء ، بارہویں صدی کے بائیس شہداء ، تیرہویں صدی کے انیس شہداء ، چودہویں صدی کے تیرہ شہداء ۔ جن مشہور علماء کے حالات زندگی کو علامہ امینی نے اس کتاب میں بیان کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :علامہ ادیب ابو الحسن تہامی معروف بہ علی بن محمد حسن عاملی شامی ، امام ابو المحاسن رویانی طبری ، ابو علی فتال نیشاپوری ، ابن راوندی ، طغرائی ، علامہ طبرسی جن کی شہادت مشہور نہیں تھی اس لئے کہ ان کی شہادت زہر سے واقع ہوئی تھی ۔ شہید اول محمد بن مکی عاملی نبطی جزینی ، یہ سب سے پہلے شیعوں میں اس لقب سے مشہور ہوئے ، علی بن ابو الفضل حلبی ، سید الحکماء ابو المعالی ، سید فاضل امیر غیاث الدین ، علامہ محقق کرکی ، شہید ثانی زین الدین بن علی عاملی ، شہید ثالث شہاب الدین بن محمود بن سعید تستری خراسانی ، شیخ جلیل ملا احمد ، علامہ قاضی تستری مرعشی ، علامہ سید محمد مومن ، علامہ مدرس ابو الفتح ، فقیہ شیخ محمد ، علامہ شیخ محمد حسین اعسم ، علامہ شیخ فضل اللہ ابن ملا عباس نوری ، اور ایسے ہی دسیوں افراد جنہوںنے درخت اسلام کی آبیاری کی اور اپنا خون ،دین اور اہل دین کی راہ میں پیش کیا ۔
٢۔ سیرتنا وسنتنا :
یہ کتاب نجف اشرف میں ١٣٨٣ھ میں اور تہران میں ١٣٨٦ ھ میں شائع ہوئی ۔
یہ کتاب علامہ امینی کے ان دروس کا مجموعہ ہے جوانہوں نے شام میں ١٣٨٤ ھ کو بیان کیا تھا۔اس میں ان سوالوں کا مکمل اورجامع جواب ہے جو اہل بیت کی محبت کے سلسلے میں شیعوں کے غلو آمیز رویہ اور امام حسین کی عزاداری کے متعلق ان سے کئے گئے تھے ۔
علامہ نے ان تہمتوں کا جواب دیاہے جیسے یہ کہ شیعہ کربلا کی مٹی کو سجدہ گاہ قرار دیتے ہیں ، انہوںنے اس کا جواب دیا :
''شیعہ کربلا کی تربت پر سجدہ کو واجب نہیں سمجھتے بلکہ جائز جانتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح تمام زمین پر سجدہ کو جائز سمجھتے ہیں،نئی بات صرف یہ ہے کہ شیعہ حضرات امام حسین کی تربت پر سجدہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ رسول خداؐ کی بیٹی کے فرزند سے محبت کریں اور یہ اعلان کریں کہ شیعہ امام حسین کی سیرت کے مطابق زندگی گذارتے ہیں ۔ علامہ امینی کے مطابق :شیعہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہماری محبت ہے ،یہ ہمارے حسین ہیں اور یہ ہے ان کی عزاداری ، یہ ہے ان کی تربت جو ہماری سجدہ گاہ ہے ، خدا ہمارا خالق ہے اور رسول خدا ۖ کی سنت و سیرت ہی ہماری سنت و سیرت ہے ''۔
٣۔ تصحیح کامل الزیارات :
یہ شیخ الطائفة ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ ( متوفی ٣٧٦ھ ) کی کتاب ہے ، اس کی سند صحیح اور روایتیں متواتر ہیں ، جنہیں موثق علماء نے نقل کیاہے ، مختلف طرق سے ائمہ طاہرین کی طرف نسبت دی گئی ہے ، اس کے راوی چھ سو سے زائد ہیں جو سب کے سب موثق ہیں ۔
علامہ امینی نے اس کتاب کی تحقیق کی ہے اور اس کی تصحیح میں کتاب میں مذکور قابل اعتماد تمام مآخذ (وسائل الشیعہ ، مستدرک الشیعہ ، بحار الانوار ، اور دوسری معتبر رجالی کتابوں) کی طرف رجوع کیاہے ۔
٤۔ تفسیر فاتحة الکتاب :١٣٥٩ھ میں تہران سے شائع ہوئی ۔
یہ کتاب علامہ کی پہلی تالیف اور تالیف و تحقیق کے میدان میں ان کا پہلا قدم ہے ، اس سورہ کی آیات پر مشتمل ان کی تفسیر میں واضح اور اہم ترین مطالب ،توحید ، قضاو قدر ، جبر و تفویض جیسے مسائل مذکور ہیں ، یہ تمام مطالب رسول خدا ۖ اور اہل بیت کرام کی روایتوں سے مستفاد ہیں ، علامہ امینی نے اس تفسیر میں چند مسائل کی طرف اشارہ کیاہے : صفا ت یعنی صفات ذاتی و صفات فعلی ، علم اجمالی و تفصیلی ، مشیت ازلی و محدثہ ، ارادۂ تکوینی و تشریعی ، اور بھی دوسرے کلام اور فلسفہ کے پیچیدہ مسائل ۔ جن میں سے بعض کا مکمل اور مناسب جواب دیاگیا ہے ۔
٥۔ ادب الزائر لمن یمم الحائز:١٣٦٢میں نجف اشرف سے شائع ہوئی ۔
امام حسین کے زائر کے لئے جو اعمال ضروری ہیں ، ان اعمال پر مشتمل یہ مختصر رسالہ ہے ، اس میں امام حسین کے حرم میں دعا کے آداب کو بیان کیاگیاہے ، اس میں دعائے علقمہ کی شرح بھی موجودہے ۔
٦۔ تعالیق فی اصول الفقہ علی کتاب الرسائل ، تالیف شیخ انصاری : یہ خطی کتاب ہے ۔
٧۔ المقاصد العلیة فی المطالب السنیة: قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر پر مشتمل یہ خطی کتاب ہے ۔
٨۔ ریاض الانس : دو جلدوںمیں خطی نسخہ ہے ۔
٩۔ رجال آذربایجان : خطی ہے ۔
١٠۔ ثمرات الاسفار : خطی ہے ۔
١١۔ العترة الطاھرة فی الکتاب العزیز :
١٢۔ موسوعة الغدیر : جو علامہ کی نصف صدی کی تلاش و کوشش کا ثمرہ ہے ۔

''الغدیر'' آپ کا نازش آفریں کارنامہ :
''الغدیر'' علامہ امینی کا نازش آفریں کارنامہ ہے ، آپ کی تمام عمر کی تلاش و کاوش کا ماحصل ، نیز آپ کی خانوادۂ عصمت و طہارت سے والہانہ عقیدت کا ثبوت ۔ اس کتاب کی تالیف میں آپ نے نجف ا شرف کے تمام کتب خانے چھان مارے ، ایران ، ہندوستان ، شام ، ترکی اور دیگر ممالک کا سفر کیا ۔ ان ممالک کے اہم کتب خانوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا اور جو کچھ بھی موضوع ولایت سے متعلق مواد ملا اسے اس میں جمع کردیا ہے ۔ یہ شیعیت کا انسائیکلوپیڈیا کہی جاسکتی ہے ، شاندار عربی ادب کا نمونہ ہے ، علمی و ادبی پایہ دونوں ہی بلند ہے ، بیس جلدوں میں یہ کتاب ترتیب دی ہے اور ابھی تک صرف گیارہ جلدیں طبع ہوئی ہیں ۔ تقریباً (٥٥) سال پہلے کتاب ''الغدیر '' لکھی گئی تھی ، یہ بات جرأتمندانہ کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی تحقیق کی دنیا میں کوئی نہیں جو الغدیر اور علامہ امینی سے ناواقف ہوگا ۔
حالانکہ الغدیر کے مطالب بہت سے لوگوں کے مزاج کے مطابق نہیں ہیں لیکن چونکہ اسے قابل اعتماد منابع و مآخذ کے ذریعہ لکھاگیاہے ، اسی لئے ان ٥٥برسوں میں کوئی بھی فرقہ الغدیر کی تردید یا انتقاد نہیں کر پایا ، یا حتی اس کے ایک صفحہ کی بھی تردید نہیں کر پایا ۔خود علامہ امینی فرماتے ہیں :میں نے الغدیر لکھنے کے لئے دس ہزار کتابوں کو ( جن میں سے ہر ایک ممکن ہے کئی جلدوں پر مشتمل ہو) اول سے آخر تک پڑھاہے ، (١٠٠) ہزار کتابوں کی طرف کئی مرتبہ رجوع کیاہے ۔
کتاب الغدیر میں جن منابع و مصادر سے استناد کیاگیاہے وہ سب کے سب علمائے اہل سنت کے منابع ہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل سنت کی کتابیں علامہ کی نظر میں معتبر ، اور علمائے شیعہ کی کتابیں ناقابل اعتماد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مناظرے میں حریف کے سامنے جو بات پیش کی جائے اسے منطقی اعتبار سے انہیں کے علماء کی کتابوں کے ذیل میں پیش کی جائے ، آپ نے اسی مسلمہ منطقی اصول پر الغدیر لکھی ہے ، وہ خود فرماتے ہیں : الغدیر میں جو مطالب لکھے گئے ہیں وہ مذہبی نہیں بلکہ اسلامی ہیں ۔یعنی یہ ایسے مسائل نہیں جو صرف شیعوں کا عقیدہ کہے جائیں بلکہ یہ وہ مسائل ہیں جو تمام مذاہب و فرق اسلامی میں متفقہ اور مسلمہ ہیں ۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں : شیعہ ، اہل سنت کے ساتھ مناظرہ کرتے وقت ، انہیں قانع کرنے کے لئے انہیں کی احادیث سے احتجاج و استناد کرتے ہیں ؛ اس لئے کہ خود اہل سنت کی حدیث ، انہیں قانع کرنے کے لئے زیادہ مقبول ہے ، ورنہ شیعوں کو ان کی احادیث کی قطعی ضرورت نہیں ، مناظرہ و احتجاج کامعقول و مقبول طریقہ بھی یہی ہے ، نہ وہ راستہ جسے وہ خود اختیار کرتے ہیں ؛ اس لئے کہ وہ سب ہر ایک مسئلہ میں اپنے ہی علماء اور اپنی ہی کتابوں کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں اور ایسا استدلال، بحث و مناظرہ کے قوانین سے خارج ہے ۔
اگر کتاب '' الغدیر '' کا دقیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو اس کی بعض خصوصیات کھل کر سامنے آئیں گی ، مثلاً:
١۔علامہ امینی نے جدل کی روش پرمباحث کی تدوین و ترتیب کی ہے ، یعنی حریف کو انہیں کے عقائد کے ذریعہ مغلوب کیا ہے ۔
٢۔انہوں نے بحث و مناظرہ کے میدان میں مطالب و احتجاجات کو مستند بنایاہے۔
٣۔ تمام مباحث میں بلیغ ، سادہ و سلیس اور بہترین نثر سے استفادہ کیاہے۔
٤۔ مطالب میں جابجا عربی محاوروں کو برمحل استعمال کیاہے ۔
٥۔ مطالب کے اختتام یا ان کے درمیان قرآنی آیات سے استفادہ کیاہے ۔
٦۔ حدیث ، تاریخ ، عقائد ، اخلاق ، فقہ ،رجال و... پر مشتمل اساسی مسائل کے سلسلے میں مفصل بحث پیش کی ہے اور حق مطلب کی ادائیگی کی ہے ۔

مولف و کتاب ؛ علماء و دانشوروں کی نظر میں
کتاب '' الغدیر '' کی اشاعت کے بعد عالم اسلام کے نامور علماء اور محققین نے اسے ایک باعظمت اور عالی کتاب پایا ۔ دسیوں بلکہ سیکڑوں ادیب ، شاعر ، عالم ، محقق ، مورخوں اور مفسروں نے اس کتاب پر تقریظیں لکھیں، شعر کہے اور تعریف و تمجید کے پیغام روانہ کئے ۔ قاہرہ سے لبنان تک ، بغداد سے ٹیونس تک ، تہران سے دہلی تک اور اسلام آباد سے شام تک دنیا کے بہت سے علمی اور تحقیقاتی مراکز کی طرف سے اس کتاب کی تعریف و تمجید ہوئی ، اگر ان سب کے تاثرات اور خیالات لکھے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی ، اسی لئے یہاں بعض علماء کے بعض اقتباسات قلمبند کیاجارہے ہیں:
١۔ آیة اللہ سید محسن حکیم اور آیة اللہ سید حسین حمامی اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں : (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ )۔
٢۔ آیة اللہ سید عبد الہادی شیرازی ، شیخ محمد رضا آل یاسین اور علامہ اردوبادی کہتے ہیں : (لا ریب فیہ ھدی للمتقین)۔
٣۔ علامہ بزرگ تہرانی صاحب الذریعہ فرماتے ہیں :
' ' میں اس عظیم کتاب کے اوصاف بیان کرنے سے قاصر ہوں اور الغدیر کا مقام اس سے بالاتر ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔ تنہاکام جو حقیر اس سلسلے میں انجام دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خداوندعالم سے دعا کرتاہوں کہ اس کتاب کے مولف کی عمر دراز ہو اور ان کی عاقبت بخیر ہو اور خلوص نیت کے ساتھ خدا سے چاہتاہوں کہ میری باقیماندہ زندگی بھی مولف کی عمر شریف میں اضافہ فرمائے ۔
کچھ سنی علماء و دانشوروں نے کتاب کے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں ، وہ خطوط کی شکل میں الغدیر میں شائع ہوئی ہیں ، یہاں ان کا اقتباس پیش کیا جارہاہے :
١۔ ڈاکٹر محمد غلاب مصری :یہ کتاب صاحبان تحقیق کی آرزو ہے ۔
٢۔ محمد عبد الغنی حسن مصری : الغدیر عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے ۔
٣۔ ڈاکٹر عبد الرحمان کیالی حلبی : ہر مسلمان کے پاس یہ کتاب رہنا چاہئے ۔
٤۔ ڈاکٹر توفیق الفکیکی بغدادی : یہ کتاب آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرة المعارف ہے ۔
٥۔ عبد الفتاح عبد المقصود مصری : الغدیر اپنے اندر معرفت کی ایک وسیع دنیا سمائے ہوئے ہے ۔
٦۔ علاء الدین خروفہ ازہری : الغدیر چونکا دینے والی کتاب ہے۔

اولاد
علامہ کی پہلی بیوی سے تین بیٹے ہوئے ، جو یہ ہیں :
١۔ڈاکٹر شیخ محمد ہادی امینی ؛جو تحقیق و تالیف میں مشغول ہیں۔
٢۔حجة الاسلام والمسلمین شیخ رضا امینی ، علامہ امینی جہاں بھی جاتے وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے ، وہ سایہ کی طرح اپنے والد کے ہمراہ لگے رہتے تھے ۔ خاص طور سے ہندوستان ، شام ، ترکی اور دوسرے اسلامی ملکوں میں جہاں علامہ امینی نے تحقیق و تالیف کے سلسلے میں سفر کیا ۔
٣۔ ان کے تیسرے فرزند محمد صادق امینی مرحوم ہیں ، یہ اہل بیت اور ان کے مکتب کے پکے حامی و دوستدار تھے ۔
اوران کی دوسری بیوی علویہ بنت سید علی خلخالی سے ان کے یہ فرزند ہوئے : شیخ احمد ، شیخ محمد امینی و....۔

وفات و تدفین
یہ عظیم مجاہد کثرت مطالعہ سے صاحب فراش ہوا اور بروز جمعہ ٢٨ ربیع الثانی ١٣٩٠ھ بروز جمعہ ظہر سے قبل تہران میں وفات پاگیا۔
انتقال سے پہلے تربت کربلا سے مخلوط پانی سے اپنا لباس مرطوب کیا اور اپنے فرزند آقای رضا امینی نجفی سے فرمایا کہ میرے لئے دعائے عدیلہ پڑھو، انہوںنے دعائے عدیلہ پڑھ لی تو مناجات خمس عشر کی فرمائش کی پھر دعائے متوسلین پھر مناجات معتصمین پڑھوائی ۔
رضا امینی دعائیں پڑھتے جاتے اور علامہ مخزون اندازمیں دہراتے جاتے ، آپ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی ، آپ کی زبان پر آخری کلمات دعا کے یہ فقرے تھے : اللھم ھذہ سکرات الموت قد حلت فاقبل الی بوجھک الکریم واعنی علی نفسی بما تعین بہ الصالحین علی انفسھم ...۔
پچاس سال تک مسلسل تحقیق و تلاش کرنے والا یہ تلاطم انگیز دریا خاموش ہوگیا ، شمع فروزاں بجھ گئی ، آپ کا جنازہ نجف اشرف منتقل کیاگیا اور وصیت کے مطابق کتب خانہ امیر المومنین میں سپرد خاک کردیاگیا ۔

نوٹ : اس سوانح حیات کی تحریر میں جن کتابوں سے مدد لی گئی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :
۱۔دانشوران غدیر : مولانا سید علی اختر رضوی (نامکمل)
۲۔ برگزیدۂ جامع الغدیر : آقای شفیعی شاھرودی
۳۔ مقدمۂ فاطمہ زہراء ؛ علامہ امینی طاب ثراہ
۴۔ الغدیر کا ایک جائزہ
۵۔ چکیدۂ مقالات کنگرۂ بین المللی الغدیر وغیرہ ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .